طیبہ کا سفر شکر ہے در پیش ہوا ہے

خوشیوں کا مسرت کا کنول دل میں کھلا ہے

بے تابیِ دل آج سکوں پائے گی میری

ہے اُن کا کرم اِذنِ سفر مجھ کو مِلا ہے

مٹ جائے گی اک پل میں سیاہی مرے دل کی

جاتا ہوں جہا ں مرکزِ انوار و ضیا ہے

بے نور نگاہوں کو بھی انوار ملے گا

طیبہ ہے کہ اک مرکزِ انوار وضیا ہے

دیکھوں گا بہ صد ناز وادب جالی سنہری

صدقے ، مرے آقا کے کرم مجھ پہ کیا ہے

اب روضۂ جنت میں مری ہوں گی نمازیں

صد شکر کہ مجھ پر درِ جنت بھی کھلا ہے

وہ اُستنِ حنّا نہ بھی آئے گا نظر میں

ہجرِ شہ طیبہ میں جو اشکبار ہوا ہے

جاؤں گا بقیع میں تورہے گی یہی حسرت

پیوندِ زمیں مَیں ، ہوجاؤں یہ جا ہے

پائیں گے اماں جتنے بھی غم گیں ہیں دُکھی ہیں

لاریب! ہر اک دُکھ کی دواخاکِ شفا ہے

پلکوں سے خوشا چوموں گا طیبہ کی زمیں مَیں

قدموں سے بھی چلنا تو وہاں ایک خطا ہے

ہو کر درِ سرکار سے جائیں گے حرم کو

کعبہ ہمیں سرکار کے صدقے میں مِلا ہے

ہر سال مدینے میں بلانا ہمیں آقا

یوں آپ کے الطاف سے یہ دور بھی کیا ہے

مَیں سانس بھی لوں تیز تو یہ بے ادبی ہو

رہنا ہے خبردار! کہ شمشیر کی جا ہے

محروم تو اغیار بھی جس در سے نہیں ہیں

قسمت سے مُشاہدؔ بھی اُسی در کا گدا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]