عاجز ہے ترا ناعتِ صد حرفِ فضیلہ

اے اوج نشاں ! صاحبِ اوصافِ جمیلہ

انعام ہے ، اکرام ہے ، احسان ہے واللہ

اِک فردِ زیاں اور یہ حسانی قبیلہ !

بے وجہ کرم یاب نہیں عبدِ خجل زاد

مدحت تری حیلہ ہے ، ترا نام وسیلہ

دے اپنی خطا پوش شفاعت کی پنہ دے

لے ڈوبیں گے ورنہ مجھے اعمالِ رذیلہ

اِک مژدۂ جاءوک سے مٹ جائے گی یکسر

یہ ہجر زدہ تلخئ اسفارِ طویلہ

ایمان سراپا تھے وہ اعمالِ معلیٰ

قُرآن مجسم تھے وہ اخلاقِ نبیلہ

کافی ہے بہ ہر شوق ترا خوانِ عنایت

شافی ہے بہ ہر خیر ترا دستِ کفیلہ

کیا نعت لکھے تیری یہ اِک خامۂ عاجز

کیا شان کہیں تیری یہ الفاظِ علیلہ

کاوش سے ورا مدحتِ عالی کی تمنا

مدحت سے فزوں تیرے مقاماتِ جلیلہ

موقوف ہے مرضی پہ ترے در کی حضوری

تدبیر کریں کیسے مرے حسرت و حیلہ

ممکن ہی نہیں نعت کے امکان کا سوچیں

مقصودؔ ! مری زیست کے لمحاتِ قلیلہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]