عاشق کو تیرے لاکھ کوئی رہنما ملے

تیرا پتا ملا ہے نہ تیرا پتا ملے

میں خاک میں ملوں تو کہیں کچھ پتہ چلے

نقشِ قدم بنوں تو ترا نقشِ پا ملے

تم مجھ سے آ ملے کبھی دشمن سے جا ملے

جب یہ مزاج ہے تو کوئی تم سے کیا ملے

بعد فنا بھی خیر سے تنہا نہیں ہیں ہم

بندوں سے چھٹ گئے تو فرشتوں میں آ ملے

وہ زخم دو کہ زخم کے لب پر دعا بھی ہو

نقشِ جفا کے پاس ہی نقشِ وفا ملے

زاہد ہے تو ہی بندۂ اللہ ہم نہیں

کوئی حدیث ہے کہ تجھی کو خدا ملے

رسمِ وفا ہے ترک تو نیچی نظر بھی ہے

جب دل نہیں ملا تو تری آنکھ کیا ملے

نخوت سے وہ زمین پہ رکھتے نہیں قدم

کیونکر کسی کو اُن کا کوئی نقشِ پا ملے

جب دیر میں یہ دیکھا کہ اپنا گزر نہیں

کعبے کے جانے والوں میں مجبور جا ملے

آئینہ بات کرنے کی فرصت بھی دے تمہیں

تم کیا ملو کسی سے کوئی تم سے کیا ملے

شوقِ وصالِ یار میں ہاتھوں سے دل چلا

ارمان بھی ملے تو ہمیں دلربا ملے

زاہد تجھے غرور مجھے انفعال ہے

محشر میں دیکھنا ہے کہ کس کو خدا ملے

وہ بدگمان ہوں اُسے سمجھوں میں کُوئے غیر

اپنی گلی میں بھی جو ترا نقشِ پا ملے

دیکھو رساؔ چلے تو ہو تم توبہ توڑنے

در پر نہ مے کدے کے کوئی پارسا ملے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]