عمر بس اعداد کی گنتی سے بڑھ کر کچھ نہیں

زندگی ، کارِ عبث، جس کی نہایت موت ہے

لوٹ کر جانے کا کس کمبخت کو اب حوصلہ

راہ سے بھٹکے ہوؤں کو اب ہدایت موت ہے

یہ بکھیڑا ، جو بنامِ زندگی پالا گیا

اس مشقت کی غرض کہیے کہ غایت موت ہے

وہ جو اپنی ذات کے زندان میں بے چین ہیں

ان اسیروں کی سزاؤں میں رعایت موت ہے

تو بھلا کیا زندگی بخشے گا اہلِ عشق کو

اس قبیلے کی درخشندہ روایت موت ہے

زندگی کے خواب تو تعبیر سے عاری رہے

جو ابھی تک سچ ہوئی ہے وہ حکایت موت ہے

کاٹنے کو دوڑتی ہے درد کی یکسانیت

بے دلی کے زخم خوردہ کو عنایت موت ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]