عیسوی سال کا جب پانچ سو ستّر اُترا

رات کے پچھلے پہر نور کا پیکر اُترا

میں اُسے ڈھونڈ رہا تھا کسی جانب، لیکن

وہ مری روح میں ڈھل کر مرے اندر اُترا

وہ عجب نام ہے جب بھی اسے جپنا چاہا

وہ محمد ہے مرے لب پہ مکرّر اُترا

کاسۂ دل میں تری یاد کی شبنم مہکی

اُفقِ دید پہ حیرت زدہ منظر اُترا

وہ مرا دستِ طلب تھا کہ جو تھک ہار گیا

یہ ترا دست عطا ہے کہ برابر اُترا

مَیں اُسے حیطۂ ادراک میں لاؤں کیسے

وہ ابھی زہن میں آیا تھا کہ دل پر اُترا

مَیں نے مقصودؔ تراشا تو تھا اک نعت محل

وہ مگر قریۂ احساس سے اوپر اُترا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]