غیر کے بیش سے مطلب ہے نہ کم مانگتے ہیں

صاحبِ خیر و عنایات سے ہم مانگتے ہیں

خوار ہوں کیوں کسی محدود تمنا کے سبب

مالکِ جملہ نِعَم ! جملہ نِعَم مانگتے ہیں

ہم کو ہونا ہے نہاں خانۂ جاں سے روشن

ہم کفِ دل پہ ترا نقشِ قدم مانگتے ہیں

سطوت و عزت و عظمت کے حوالے یکسر

درگہِ ناز سے خیراتِ حشَم مانگتے ہیں

دم بدم انفس و آفاق کے امکانِ نمو

بہرِ تزئین ترا عکسِ شِیَم مانگتے ہیں

ہم نہیں کاسہ و دامن پہ قناعت والے

تجھ سے جب مانگتے ہیں خیرِ اَتم مانگتے ہیں

حرف لکھنے ہوں تو افکار سے لیتے ہیں خراج

نعت کہنی ہو تو پھر لوح و قلَم مانگتے ہیں

ہم کہاں صاحبِ توشہ ہیں کہ میزان لگے

ہم خطا کار ہیں اور اُن کا کرم مانگتے ہیں

یہ جو اِک لمحۂ تمدیحِ نبی ہے مقصودؔ

ہم اِسی لمحے میں اِک عمر کا ضَم مانگتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]