فقیر کاسہ بکف ہے آقا صدا لگاتا ہے بہرِ بخشش

لیے ہے سر پر عمل کی گٹھڑی نہیں کچھ اس میں سواے لغزش

یہ ایک مدت سے شہرِ ہجر و فراق سے محوِ التجاء ہے

یہ ایک مدت سے شہرِ نور و کرم کی دل میں لیے ہے خواہش

میں ڈھونڈتا ہوں ہر اک زباں میں، سبھی حروف ان کی شاں کے شایاں

ہیں حرف معذور، نطق بے بس کرے یہ کیسے تری ستائش

عجیب پر نور کیف آور فضا حرم کی ہے میرے آقا

عجب تحیر میں صحنِ طیبہ میں دیکھتا ہوں کرم کی بارش

کرم وہ فرمائیں روزِ محشر سکون مجرم کو تب ملے گا

ہلاکتوں سے بچائیں مجھ کو کریم میرے یہ ہے گزارش

بندھی ہے ڈھارس دعائے سلِّم کے آسرے پر رواں دواں ہیں

کریم آقا کرم سے اپنے سنبھالتے ہیں قدم کی جنبش

عبث ہے کارِ سخن سراسر اگر نہ ہو حسنِ نعتِ سرور

قبولِ دربار کرلیں آقا یہ اپنے منظر کی خام کوشش

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]