قریب مرگ تھا آئی علی علی کی صدا
حیات ساتھ میں لائی علی علی کی صدا
دعائیں ماں کے لئے کیں بہت سر محشر
وہاں پہ کام جو آئی علی علی کی صدا
میں مر گیا تو مری قبر میں بھی گونج اٹھی
کچھ ایسی دل میں سمائی علی علی کی صدا
گھرے ہوئے ہوئے ہو مصیبت میں دل جلاتے ہو
ذرا لگاؤں تو بھائی علی علی کی صدا
جو پائی باپ سے ورثے میں دی ہے بچوں کو
انہیں بھی میں نے سکھائی علی علی کی صدا
وہیں سے جھولیاں بھر کر چلا ہوں میں کاشف
جہاں بھی میں نے لگائی علی علی کی صدا