قریب مرگ تھا آئی علی علی کی صدا

حیات ساتھ میں لائی علی علی کی صدا

دعائیں ماں کے لئے کیں بہت سر محشر

وہاں پہ کام جو آئی علی علی کی صدا

میں مر گیا تو مری قبر میں بھی گونج اٹھی

کچھ ایسی دل میں سمائی علی علی کی صدا

گھرے ہوئے ہوئے ہو مصیبت میں دل جلاتے ہو

ذرا لگاؤں تو بھائی علی علی کی صدا

جو پائی باپ سے ورثے میں دی ہے بچوں کو

انہیں بھی میں نے سکھائی علی علی کی صدا

وہیں سے جھولیاں بھر کر چلا ہوں میں کاشف

جہاں بھی میں نے لگائی علی علی کی صدا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]