قریۂ سیم و زر و نام و نسب یاد آیا

پھر مجھے ترکِ تعلق کا سبب یاد آیا

ہجر میں بھول گئے یہ بھی کہ بچھڑے تھے کبھی

دور وہ دل سے ہوا کب، ہمیں کب یاد آیا

کارِ بیکار جسے یاد کہا جاتا ہے

بات بے بات یہی کارِ عجب یاد آیا

ق

پارۂ ابر ہٹا سینۂ مہتاب سے جب

عشوۂ ناز سرِ خلوتِ شب یاد آیا

عارضِ شب ہوئے گلنار، صبا شرمائی

جب ترا غمزۂ غمازِ طلب یاد آیا

پھر مری توبۂ لرزاں پہ قیامت گزری

پھر مجھے رقصِ شبِ بنتِ عنب یاد آیا

یاد آئے ترے کم ظرف بہکنے والے

جامِ کم کیف بصد شور و شغب یاد آیا

چاندنی، جھیل، ہوا، زلفِ پریشاں، بادل

دل و جاں ہم نے کہاں کھوئے تھے اب یاد آیا

کیا لکھے کوئی بجز نوحۂ قرطاس کہ حیف

بے ادب خامۂ ارزاں کو ادب یاد آیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]