لامکاں میں بھی قدم ہے سیدی سرکار کا

دیکھ کیا جاہ و حشم ہے مالک و مختار کا

لکھ رہا ہوں نعتِ سلطان و شہِ کون و مکاں

دم بہ دم مجھ پر کرم ہے یوں شہِ ابرار کا

تشنگی کو دور کرنے کے لیے دیدار کی

جام اِن آنکھوں کا نم ہے ان کے بادہ خوار کا

تابِ مہرِ حشر میں بھی ہم غلاموں کے لیے

وافی و کافی علم ہے سیدی سردار کا

آیۂ فَلْیَفْرَحُوْا کی اتباعِ شوق میں

ذکر جاری دم بہ دم ہے آمدِ سرکار کا

حشر میں بھی قبرمیں بھی اے شفیع المذنبیں

آپ نے رکھا بھرم ہے مجھ سے دنیا دار کا

دیدِ حسنِ کُل کا طالب ہے کھڑا بر چشمِ نم

اور وطن ملکِ عجم ہے طالبِ دیدار کا

اپنے تو اپنے وہاں سے غیر بھی پاتے ہیں فیض

واہ کیا طرزِ کرم ہے نور کی سرکار کا

دستِ رحمت قلبِ منظر پر ذرا رکھ دیجیے

آج بامِ لب پہ دم ہے ہجر کے بیمار کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]