لبوں سے اسمِ محمد کا نور لف کیا ہے

تو زندگی کے اندھیروں کو برطرف کیا ہے

اتر رہی ہے مرے دل پہ آیتِ مدحت

حروفِ عجز و معانی کو صف بہ صف کیا ہے

وہ آ رہے ہیں مرے قلب کے مدینے میں

صدائے کربِ دروں کو صدائے دف کیا ہے

وہی سکھائے گا توصیف کا قرینہ مجھے

مجھ ایسے خام کو جس نے قلم بکف کیا ہے

نظر نے چومنا ہے جادۂ دیارِ نبی

جبیں نے نقشِ کفِ مصطفیٰ ہدف کیا ہے

سلام اشکِ رواں میں ملا کے پیش کیا

دہن درود کی خوشبو سے با شرف کیا ہے

تمہاری آل سے الفت میں سرخروئی ہے

اسی خیال نے گرویدۂ نجف کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]