لوگوں نے اس لئے مجھے پاگل نہیں کہا

میں نے کبھی بھی دشت کو جنگل نہیں کہا

اس شخص پہ بھی ہو کوئی تعزیر ، چپ رہا

پر وقت کے حصار کو مقتل نہیں کہا

دریائے عمر ، عمر بھر چلتا نہیں رہا

ساکت ہوا بھی تو اسے دلدل نہیں کہا

اے کم نصیب شخص تو خود کھو گیا کہیں

میں نے تو اپنی آنکھ سے اوجھل نہیں کہا

آنسو بہے بھی تو نہیں دریا کہا انہیں

آنکھوں میں اترے کرب کو بادل نہیں کہا

ترسے ہوئے ہیں کان اس آواز کے لئے

مدت ہوئی ہے آپ نے کومل نہیں کہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]