لوگ کیا کیا گفتگو کے درمیاں کھلنے لگے

ذکر یاراں چل پڑا تو راز داں کھلنے لگے

پھر پڑاؤ ڈل گئے یادوں کے شامِ ہجر میں

اور فصیلِ شہرِ جاں پر کارواں کھلنے لگے

تنگ شہروں میں کھلے ساگر کی باتیں کیا چلیں

بادِ ہجرت چل پڑی اور بادباں کھلنے لگے

جب سے دل کا آئنہ شفاف رکھنا آ گیا

میری آنکھوں پر کئی عکسِ نہاں کھلنے لگے

دل کی شریانوں میں تازہ غم اک ایسے جم گیا

سب پرانے زخم ہائے بے نشاں کھلنے لگے

تیرے غم کا مہر بستہ گوشوارہ کیا کھلا

عمر بھر کے دفتر سود و زیاں کھلنے لگے

مدتوں سے ہم نشیں تھے ہم نشاط وہم طرب

مبتلائے غم ہوا تو مہرباں کھلنے لگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]