لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کو سنبھالا جائے
وہ جو سینے میں دھڑکتا ہے، نکالا جائے
ہجر کے پھول تسلسل سے کھلے جاتے ہیں
عشق کی شاخ کو اب کاٹ نہ ڈالا جائے؟
فصلِ گل ہے تو کوئی جشن منانا لازم
دل کے شیشے کو سرِ بزم اچھالا جائے
کوئی منطق ، کوئی تاویل ، بہانہ کوئی
جس سے دنیا کے سوالات کوٹالا جائے
میرے امکان جلا دے کہ رہِ ہجرت میں
تیرے ہمراہ ذرا دور اجالا جائے
سنگِ وحشت سے بھی اصنام تراشے جائیں
آب اور گِل سے کسی روپ کو ڈھالا جائے
اس قدر صدق سے برباد بھی کیوں ہو کوئی
حادثہ اتنے تکلف سے نہ پالا جائے