لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کو سنبھالا جائے

وہ جو سینے میں دھڑکتا ہے، نکالا جائے

ہجر کے پھول تسلسل سے کھلے جاتے ہیں

عشق کی شاخ کو اب کاٹ نہ ڈالا جائے؟

فصلِ گل ہے تو کوئی جشن منانا لازم

دل کے شیشے کو سرِ بزم اچھالا جائے

کوئی منطق ، کوئی تاویل ، بہانہ کوئی

جس سے دنیا کے سوالات کوٹالا جائے

میرے امکان جلا دے کہ رہِ ہجرت میں

تیرے ہمراہ ذرا دور اجالا جائے

سنگِ وحشت سے بھی اصنام تراشے جائیں

آب اور گِل سے کسی روپ کو ڈھالا جائے

اس قدر صدق سے برباد بھی کیوں ہو کوئی

حادثہ اتنے تکلف سے نہ پالا جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]