لہجۂِ گل سے عنادل نے ترنم سیکھا

اور غنچوں نے تبسم سے تبسم سیکھا

نطقِ یوحٰی کے فدائی ہوئے عالم کے بلیغ

میرے افصح سے فصیحوں نے تکلم سیکھا

اللہ اللہ صحابہ تِرے سبقت والے

جن سے عالم نے تبرُّع میں تقدم سیکھا

کثرتِ جود سے دریا نے روانی پائی

جوشِ رحمت سے ہے موجوں نے تلاطم سیکھا

یہ بھی من جملہ خصائص ہے کہ امّت میں تری

فاقدِ آبِ طہارت نے تیمم سیکھا

علمِ کونین تِرا قطرۂِ دریائے علوم

عقلِ عالم نے ترے در سے تفہم سیکھا

بکھری اشیا ہیں مرتب ترے گیسو کے طفیل

بے تنظم نے اسی در سے تنظم سیکھا

نوعِ انسان نے جانا یہیں انساں ہونا

وحشیوں نے تِری رحمت سے ترحم سیکھا

اے معظمؔ ! ہے اسی در پہ یقیں کی دولت

اور ہر جا سے تو عالم نے توہم سیکھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]