ماضی کو سینے سے لگائے مستقبل کا ساتھ دیا

یوں ہم نے ہر بزم نبھائی ، ہر محفل کا ساتھ دیا

خون ابھی باقی تھا رگوں میں اور یہ ظالم ڈوب گئی

نبض ہماری کہلاتی تھی اور قاتل کا ساتھ دیا

آتشِ دل آہوں میں ڈھلی اور اشک زمیں میں جذب ہوئے

آگ ہوا سے مل گئی جا کر ، آب نے گِل کا ساتھ دیا

کر کے گریباں چاک گلوں نے بزم سجائی ماتم کی

آج شفق نے خوں برسا کر ، مجھ بسمل کا ساتھ دیا

پتا پتا کمھلایا ہے ، کیاری کیاری دھول رچی

سارے چمن نے جیسے مری بربادیٔ دل کا ساتھ دیا

تم سب کچھ پا کر بھی ناخوش ، ہم سب کچھ کھو کر بھی مگن

تم دولت کے پیچھے بھاگے ، ہم نے دل کا ساتھ دیا

مہرؔ کسی کا جھوٹا وعدہ ، دل نے جان کے مان لیا

دل جو مرکزِ حق کہلائے اور باطل کا ساتھ دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]