مانا کہ سو حجاب میں حسن و جمال ہے

لیکن نگاہِ شوق سے بچنا محال ہے

اک آرزو جو زینتِ وہم و خیال ہے

اک دردِ لادوا ، خلش لازوال ہے

الجھا ہوا ہوں کشمکشِ زندگی سے میں

اک دل ہے اور حسرت و ارماں کا جال ہے

دل ٹوٹنے کا خاک مداوا کرے کوئی

شیشہ جو ٹوٹ جائے تو جڑنا محال ہے

اک عرصۂ جدائی ہیں ہستی کے چار دن

پیغامِ موت کیا ہے ، پیامِ وصال ہے

گھر میں اثرؔ چراغ جلائے تو کیا کِیا

طوفان میں چراغ جلانا کمال ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]