مجھے خبر نہیں غم کیا ہے اور خوشی کیا ہے

یہ زندگی کی ہے صورت تو زندگی کیا ہے

جو مانگتے وہ ملے ایک عیش ہے کیا ہے

خدا کے گھر میں کسی چیز کی کمی کیا ہے

تم اپنے ہو تو نہیں غم کسی مخالف کا

زمانہ کیا ہے ، فلک کیا ہے ، مدعی کیا ہے

نثار کیجیے اس شکرئیے میں جانِ عزیز

وہ پوچھتے ہیں تری خواہشِ دلی کیا ہے

تخیلات کی خلاقیوں سے دنیا میں

مجسمہ ہے توہم کا آدمی کیا ہے

فغاں تو عشق کی اک مشق ابتدائی ہے

ابھی تو اور بڑھے گی یہ لے ابھی کیا ہے

تمام عمر اسی رنج میں تمام ہوئی

کبھی یہ تم نے نہ پوچھا تری خوشی کیا ہے

تم اپنے ہو تو نہیں غم کسی مخالف کا

زمانہ کیا ہے فلک کیا ہے مدعی کیا ہے

صلاح کار بنایا ہے مصلحت سے اسے

وگرنہ ناصح ناداں کی دوستی کیا ہے

دلوں کو کھینچ رہی ہے کسی کی مست نگاہ

یہ دل کشی ہے تو پھر عذر مے کشی کیا ہے

مذاق عشق کو سمجھو گے یوں نہ تم ناصح

لگا کے دل کہیں دیکھو یہ دل لگی کیا ہے

ازل میں قادرِ مطلق نے دے کے حکمِ سجود

بتا دیا یہ فرشتوں کو آدمی کیا ہے

یہ حلق پر ہی رہے دل میں وہ اتر جائے

مقابل اس نگہ ناز کے چُھری کیا ہے

وہ مستقل نہیں ملتے تو ضد نہ کر احسنؔ

کبھی کبھی کی ملاقات بھی بُری کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]