مجھ کو تنہائی میں سرکار بہت یاد آئے

غم کے ماروں کے وہ غم خوار بہت یاد آئے

آج ہے آپ کی امت پہ وہی سنگ زنی

پھر سے طائف کے وہ بازار بہت یاد آئے

عرش پر جا کے بھی ہم فرش نشینوں میں سے

آپ کو مجھ سے گنہگار بہت یاد آئے

دیکھ کر مسجدِ نبوی کے جمال و عظمت

پہلی بنیاد کے معمار بہت یاد آئے

پھر ہوا لب کو عطا صلِّ علیٰ کا تحفہ

پھر وہ کونین کے سردار بہت یاد آئے

آنکھ نے غسل کیا ، دل کو دھڑکنا آیا

جب مجھے سیدِ ابرار بہت یاد آئے

آ گیا مجھ کو جو قسمت کی سیاہی کا خیال

سبز گنبد کے وہ انوار بہت یاد آئے

تذکرہ جب بھی چلا اہلِ وفا کا عارفؔ

یوں تو لاکھوں ہیں مگر چار بہت یاد آئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]