محبت برملا ہے یہ اشاروں سے نہیں ہوتی

سمندر کیا ہے ؟ آگاہی کناروں سے نہیں ہوتی

مری قسمت ہے میرے ہاتھ میں، ہے کون جو بدلے؟

کہ یہ جرات تو خود میرے ستاروں سے نہیں ہوتی

کسی اُمت کسی ملت کی اونچائی حقیقت میں

معیاروں سے تو ہوتی ہے مِناروں سے نہیں ہوتی

مجھے ان اپنے پیاروں سے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ

مجھے کوئی توقع اپنے پیاروں سے نہیں ہوتی

نباہے دیر تک جو دشمنی وہ سامنے آئے

ہماری دشمنی بے اعتباروں سے نہیں ہوتی

محبت کی ، نباہی، اور دشمن کو عطا کر دی

وہ ہم نے بات کی جو آپ ساروں سے نہیں ہوتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]