محفل میں جو بھی ہے ، ان کا مقام ، جانتے ہیں

صلہ بغاوتوں کا سب غلام جانتے ہیں

تو آپ شہر کے مانے ہوئے رفو گر ہیں ؟

بتائیں دل کی سلائی کا کام جانتے ہیں

سخن کی کس طرح قیمت وصول کرنی ہے

یہ بات کچھ نئے شعراء کرام جانتے ہیں

انہیں بتائیں کہ جھکنا یہاں عبادت ہے

رکوعِ عشق کو جو بھی قیام جانتے ہیں

میں کاروبار میں ناکام ہو نہ جاؤں کہیں

یہ گھاگ لوگ ہیں ، چیزوں کے دام جانتے ہیں

دعا کریں گے مرے حق میں ، خوش گمانی ہے

جو شہرِ یار میں کومل کا نام جانتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]