مرا جذبِ دروں افسانۂ محفل نہ بن جائے

ٹھہر اے بے قراری ہر بنِ مُو دل نہ بن جائے

وہ ڈرتے ہیں اٹھاتے فتنۂ دار و رسن تازہ

کہ میرے صبر کی یہ آخری منزل نہ بن جائے

مری آنکھوں میں چارہ گر ابھی ماضی کے نقشے ہیں

ترا دستِ شفا پھر پنجۂ قاتل نہ بن جائے

مرا ذکرِ محبت آج کیوں احباب لے بیٹھے

مری بربادیٔ دل بھی کسی قابل نہ بن جائے

مچی ہے دھوم ہر سو کوچہ ہائے نجد میں ایسی

مرا جوشِ جنوں پردہ در محمل نہ بن جائے

ستم میں بھی تکلف کر رہے ہیں آج وہ شاید

تڑپ بڑھ کر میری وجہِ سکون دل نہ بن جائے

مجھے ہے خوف اس وارفتگیٔ شوق سے شیداؔ

ستارہ آرزو کا پھر مہِ کامل نہ بن جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]