مری تشنہ لبی کی خیر ، ہوگا لُطفِ عام ان کا​

کہ بزم ان کی، شراب ان کی ، صراحی ان کی ، جام ان کا​

حرم سے لامکاں تک اُن کے نقشِ پا چمکتے ہیں​

کہ ہے کونین پر سایہ فگن حُسنِ خرام ان کا​

زمانے نے ہزاروں ٹھوکروں کے بعد سمجھا ہے​

علاجِ ظلمت ایام ہے بے شک نظام ان کا​

جنہیں طیبہ کے جنت زار میں بسنا میسر ہو​

حقیقت میں نماز ان ، سجود ان کا ، قیام ان کا​

سنہری جالیوں کو جا کے جو چومے نظر وہ ہے​

تری گلیوں کی خوشبو جن کو مل جائے مشام ان کا​

مدینے جا کے جن کی زندگی کی شام ہو جائے​

مبارک اِبتدا اُن کی ، مبارک اِختتام ان کا​

مبارک ہو مدینے سے بلاوا آگیا جن کو​

سوئے جنت چلا ہے قافلہ اب گام گام ان کا​

میں اپنی آرزو کا ماحصل اب یہ سمجھتا ہوں​

ہے جب تک تابِ گویائی رہے ہونٹوں پہ نام ان کا​

اگرچہ عالمِ اسباب میں کچھ بھی نہیں اپنا​

مگر ڈھارس بندھائے ہے ابھی تک لطفِ عام ان کا​

نہ جانے کب سےاس امید میں پلکیں نہیں جھپکیں​

کہ بادِ صبح گاہی لے کے آئے گی پیام ان کا​

سمجھتا ہوں کہ اُن کے پیار کی دولت بڑی شے ہے​

شہنشاہی کو کب خاطر میں لاتا ہے غلام ان کا​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]