مرے آسمانِ دل پہ کچھ عجب گھٹا سی چھائی

جہاں آہِ سرد کھینچی کہ بہارِ غوث آئی

وہ قدم کہاں جمائے، وہ نظر کہاںاُٹھائے

جسے راس آگئی ہو تیرے نام کی دھائی

بہ نگاہِ غوث دیکھو تو یہ بات مان لو گے

جہاں عظمتِ خدا ہے وہیں شانِ مصطفائی

کوئی دوسرا نہ دیکھا بہ ہزار جستجو بھی

تری ذات غوثِ اعظم ہے عجب حسیں اکائی

بہ خیالِ شاہِ جیلاں جو ادب سے چپ ہوا میں

مری خوش عقیدگی نے نئی منقبت سنائی

جہاں اُن کا نام آیا، غم اشک جھلملایا

میری روح کی حقیقت ہے صبیحؔ کربلائی

جہاں جام پی کے بہکا دل و روح مسکرائے

ترے رند کا قدم ہے طریقِ پارسائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]