مرے شہر ذرّہ نواز کا وہی سر پھرا سا مزاج ہے

کبھی زیبِ سر ہے غبارِ رہ، کبھی زیرِ پا کوئی تاج ہے

کہیں بے طلب سی نوازشیں، کہیں بے حساب محاسبے

کبھی محسنوں پہ ملامتیں، کبھی غاصبوں کو خراج ہے

وہی بے اصول مباحثے، وہی بے جواز مناقشے

وہی حال زار ہے ہر طرف، جو روش تھی کل وہی آج ہے

وہی اہلِ حکم کی سازشیں، وہی نفرتوں کی سیاستیں

نہیں بدلا طرزِ منافقت، وہی مصلحت کا رواج ہے

کبھی چہرہ پوش ندامتیں، کبھی سینہ زور بغاوتیں

اک اترتے چڑھتے فشارِ دم کے اثر میں سارا سماج ہے

کوئی درد ہو کوئی زخم ہو، وہی میٹھے زہر کی گولیاں

کوئی عارضہ ہو کہ سانحہ، وہی عارضی سا علاج ہے

سر شہر یاراں گئے تھے ہم کہ چُکا کر آئیں گے واجبات

پہ بڑھا کے آ گئے قرضِ جاں جو محبتوں کا بیاج ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]