منظر سے ہٹ گیا ہوں میں، ایسا نہیں ابھی

ٹوٹا تو ہوں ضرور، پہ بکھرا نہیں ابھی

وہ بھی اسیرِ فتنۂ جلوہ نمائی ہے

میں بھی حصارِ ذات سے نکلا نہیں ابھی

آسودۂ خمار نہیں مضمحل ہے آنکھ

جو خواب دیکھنا تھا وہ دیکھا نہیں ابھی

داغ فراقِ یار کے پہلو میں یاس کا

اک زخم اور بھی ہے جو مہکا نہیں ابھی

نومیدیِ قرار کے ماتھے پہ درد کا

اک نقش اور بھی ہے جو نکھرا نہیں ابھی

مل تو گیا ہے شوق کو رازِ دوامِ عشق

لیکن طلب کی راہ پر آیا نہیں ابھی

سود و زیانِ کارِ وفا یاد ہے مجھے

لیکن ترے حساب میں لکھا نہیں ابھی

کچھ دن ابھی رہیں گے یہ ملنے کے سلسلے

جانا تمہارے شہر سے ٹھہرا نہیں ابھی

سہتے رہو ظہیرؔ ابھی تہمتِ حیات

مقتل مقام زیست سے اونچا نہیں ابھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]