منظر وہی پرانا ہے، موسم نیا نیا

بدلا جو میں نے زاویہ، عالم نیا نیا

تازہ ہے دوستی ابھی لہجے نہ جانچئے

کھُلتا ہے تار تار یہ ریشم نیا نیا

دل کی خلش بڑھی ہے تری قربتوں سے اور

زخموں کو جیسے ملتا ہے مرہم نیا نیا

ہر عکس کرچیاں سی چبھاتا ہے آنکھ میں

پتھر اور آئنے کا ہے سنگم نیا نیا

یارب ہو میرے شہر سیاست میں سب کی خیر

گلیوں میں پھر اٹھا کوئی پرچم نیا نیا

پیروں کو یوں بھی رقص کی عادت نہیں ظہیرؔ

چھیڑا ہے زندگی نے بھی سرگم نیا نیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]