موت سے گفتگو

سیاہ ریشم کا بے شکن ملبوس ، سنگِ مرمر سی دودھیا رنگت
سرو کے پیڑ کی طرح قامت ، آنکھ میں جھلملاہٹیں روشن
موت اک سوگوار دوشیزہ
اپنی آفاقیت بھری آنکھیں میرے چہرے پہ مرتکز کر کے
اپنے سرگوشیوں سے لہجے میں مجھ سے یوں ہمکلام ہوتی ہے
” ائے کہ شاعر حسین لفظوں کے ، ائے مصور اداس رنگوں کے،
ائے فسانہ نویسِ احساسات،
شاعری کی تو کس کی داد ملی ؟
کون سا نقش دائمی ٹھہرا؟
کس فسانے کا کوئی بھی کردار کب سرِ بامِ زندگی اترا؟
عشق کرنے چلے تو گھر کھویا ، در بدر ہو گئے سفر کرتے
کون پہنچا ترے تخیل تک ؟ مدتیں ہو گئیں بسر کرتے
زندگی اک کھلنڈری لڑکی ،
جس کی ہر اک ادا کے ہردے سے ایک ناپختگی ٹپکتی ہے
اس کو دل توڑنا شرارت ہے ، وہ جو بچھڑے تو کھلکھلاتی ہے
بات حتمی کبھی نہیں کوئی
روز مفہوم یوں بدلتی ہے جس طرح پیرہن بدلتے ہیں
خوبروئی حدود سے بڑھ کر ، رخ پہ غازہ لبوں پہ پھول مگر
صرف سطحی جمال کی حد تک
اس قدر عامیانہ طرزِ عمل ، کہ کوئی مستقل رفیق نہیں
رنگ اتنے کہ فرق مشکل ہے جیسے شو کیس کی سجاوٹ ہو
حسن ایسا کہ اشتہار بنے ، جیسے مغرب کی کوئی رقاصہ
وہ تو ہر فیصلے کے بعد سدا ایک ترمیم میں الجھتی ہے
زندگی کو پکارنے والے وہ ترے شعر کب سمجھتی ہے؟”
موت کی سیہ بلور آنکھوں میں ایک موہوم جھلملاہٹ ہے
اس کے نرم و گداز ہونٹوں پر ، ایک محزون مسکراہٹ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]