موسم کہ خوشگوار زِ باران و باد ہے

دل محوِ نعتِ خواجۂ فرخ نہاد ہے

وہ جامع الصفات قریشی نژاد ہے

پیکر ہے رحمتوں کا رقیق الفؤاد ہے

بالغ نظر ہے مانعِ بغض و عناد ہے

شمشیرِ حق ہے قاطعِ ظلم و فساد ہے

سالار ہے جری ہے امیر الجہاد ہے

پاؤں میں اس کے تاجِ سرِ کیقباد ہے

اس کے سخن سخن پہ مجھے اعتماد ہے

وحی خدا سے چونکہ وہ سب مستفاد ہے

سرخیلِ انبیاء ہے وہ ختم الرسل ہے وہ

در زمرۂ عباد وہ خیر العباد ہے

شمعِ ہدیٰ ہے اس کی ہدایت کا دائرہ

ممتد ہے اور تا سرِ یوم التُناد ہے

حبلِ متیں میانۂ مخلوق و رب ہے وہ

آوازِ حق ہے وہ عَلمِ اتحاد ہے

صورت حسیں ہے اس کی تو سیرت حسین تر

فضلِ خدا سے دونوں طرح با مراد ہے

آقا نہ جانے اب یہ مسلماں کو کیا ہوا

مسلک تھا جس کا امن وہ گرمِ فساد ہے

تحقیق و جستجو ہے نہ قرآں میں کاوشیں

مدت ہوئی کے بند درِ اجتہاد ہے

تجھ کو تری کتابِ مقدس کا واسطہ

امت پہ پھر کرم ہو کہ اب بد نہاد ہے

شہروں میں ایک شہر مدینہ بھی تھا مگر

اب تیرے دم قدم سے عروس البلاد ہے

اٹھ کر میں آستاں سے تمہارے نہ جاؤں گا

جب تک کہ روح و تن کا مرے اتحاد ہے

ہے فالِ نیک حق میں اسی خاکسار کے

امت میں آپ کی نظرِؔ کم سواد ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]