مِری جبِیں میں یہ عاجزی اِس یقِین پر ہے کہ تُو ہے آقا

نہِیں اُٹھے گا جو تیرے سجدے میں میرا سر ہے کہ تُو ہے آقا

ہوا بھی مستی میں جھوم جائے، فضا نئے گیت گا سنائے

تِری ہی توصِیف میں تو اِیمان کی ڈگر ہے کہ تُو ہے آقا

زباں کہ لُکنت سے کٹ رہی ہے، جبِیں پسِینے سے تر بتر ہے

مگر خُدایا! نزولِ رحمت پہ بھی نظر ہے کہ تُو ہے آقا

ہزار چشمے اُبل پڑیں گے تو دِل کے ارماں نِکل پڑیں گے

کہ میرے جِیون کی جوت تیری ہی آس پر ہے کہ تُو ہے آقا

رشید حسرتؔ کے آنسُوؤں میں جھلک ہے کِتنی نِدامتوں کی

مگر عقِیدت کا اُس کے سِینے میں بھی اثر ہے کہ تُو ہے آقا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]