مٹی سنوار کر مری، دیپک میں ڈھال دے

مجھ کو جلا کے پھر مری دنیا اُجال دے

مجھ کو اُٹھا کے رکھ کسی طوفاں کی آنکھ میں

ہر موج مضطرب مرے سر سے اچھال دے

ٹکرا دے حوصلہ مرا آلام زیست سے

مرنے کی آرزو کو بھی دل سے نکال دے

پامال راستوں سے ہٹا کر مرے قدم

نایافت منزلوں کے اشارے پہ ڈال دے

اک مستعار آگہی اُلجھا گئی ہے ذہن

دے مجھ کو سوچ میری اور اپنا خیال دے

خاموشیوں کے دہر میں لائے جو ارتعاش

مجبور مصلحت کو وہ حرفِ مجال دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]