مٹی سے پیار کر تو نکھر آئے گی زمین

دامن میں بھر کے اپنے ثمر آئے گی زمین

نیچے اتر خلاؤں سے لوگوں کے دکھ سمیٹ

شمس و قمرسے بڑھ کے نظر آئے گی زمین

کشتی کے آسرے کو ڈبو کر تو دیکھ تُو

پانی کے درمیان اُبھر آئے گی زمین

بٹ جائیں گی محبتیں لوگوں کیساتھ ساتھ

روٹی کے مسئلے میں اگر آئے گی زمین

طوفان بُن رہے ہیں جدھر بجلیوں کے جال

کہتا ہے ناخدا کہ اُدھر آئے گی زمین

رشک قمر بنے گی یہ اک روز دیکھنا

جب اپنی گردشوں سے گذر آئے گی زمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]