مہبطِ انوار ہے ان کا ٹھکانہ نور نور

کاش پھر سے دیکھ لوں وہ آستانہ نور نور

اک ہمیں چودہ صدی کے فاصلے سہنے پڑے

خوش مقدر تھے ملا جن کو زمانہ نور نور

اذنِ مدحت سے بڑی آسودگی بخشی گئی

مل گیا رزقِ سخن کا آب و دانہ نور نور

میری بھی فردِ عمل میں کچھ تو ہو بہرِ نجات

ہو عطا مدحت کا حرفِ جاودانہ نور نور

پرسشِ اعمال تو ہونی ہے محشر میں مگر

ہے میسر نعت گوئی کا بہانہ نور نور

فاطمہ، حسنین، زینب، عائشہ ،شیرِ خدا

سرورِ کونین کا سارا گھرانہ نور نور

کیوں نظر اشفاق دنیا کے مناظر پر ٹکے

دیکھ کر آیا ہوں وہ شہرِ یگانہ نور نور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]