میانِ روزِ جزا بنے گا گواہ کاغذ

بہ فیضِ مدحت دمک اُٹھا ہے سیاہ کاغذ

مَیں نقش کرتا ہُوں اس کے ماتھے پہ مدحِ تازہ

بڑھائے جاتا ہے یوں مری عز و جاہ کاغذ

وہ کاغذی جادہ جس پہ اُن کا ہے نام رخشاں

فلاحِ دارین کی ہے تنہا یہ راہ کاغذ

برائے ارقامِ نعت میں صرف سوچتا ہُوں

نمایاں کرتا ہے حرف کے مہر و ماہ کاغذ

نیازِ خامہ کرم کے پیہم حصار میں ہے

مجھے نوازے گا نعتِ نَو کی پناہ کاغذ

تری عطا سے ، تری ثنا کے چمن کھلے ہیں

حیات تھی ورنہ بے نمو ، بے گیاہ کاغذ

یہی ہے مقصودؔ فردِ مقہور کی تلافی

بچائے گا مجھ کو نعت زا خیرخواہ کاغذ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]