میرا سکوت سُن ، مِری گویائی پر نہ جا

آنکھوں کے حرف پڑھ ، غزل آرائی پر نہ جا

اندر سے ٹوٹا پھوٹا ہوا ہوں میں رُوح تک

تُو میرے خدّوخال کی رعنائی پر نہ جا

دو چار دن کے بعد بُھلا ڈالتے ہیں لوگ

دو چار دن کی جُھوٹی پذیرائی پر نہ جا

یہ عارضی شکست ہے بُنیاد فتح کی

میدانِ جنگ سے مِری پسپائی پر نہ جا

گر دیکھنے کی بات ہے تو پُورے دل سے دیکھ

اِن دھوکے باز آنکھوں کی بینائی پر نہ جا

آ بیٹھ عشق سیکھنے ہم پاگلوں کے بیچ

دانشورانِ شہر کی دانائی پر نہ جا

اِس گھٹتی بڑھتی ٹِکیہ کو تُو گیند مت سمجھ

فارس! مہِ تمام کی گولائی پر نہ جا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]