میری زباں پہ اس کی ثنائے جمیل ہے

بندوں کو آخری جو خدا کی دلیل ہے

سدرہ پہنچ کے شل قدمِ جبرئیل ہے

وہ جلوہ گاہِ عرش میں تنہا دخیل ہے

اس کے بیانِ حسن کو الفاظ ہی نہیں

نا ممکن البیاں ہے وہ اتنا جمیل ہے

ہو گی نہ منتہی نہ ہوئی اس کی داستاں

تیئیس سال کی ہے پہ اتنی طویل ہے

از اعتبارِ خُلقِ کریمانہ دیکھئے

رطب اللسان بمدح وہ ربِّ جلیل ہے

وہ صائم النہار ہے وہ دائم الصلوٰۃ

کھانا برائے نام ہے سونا قلیل ہے

وہ ہے حبیبِ ربِ دو عالم خوشا نصیب

ورنہ کوئی کلیم ہے کوئی خلیل ہے

کیا اس کی عظمتوں کا تصور کرے کوئی

دربان جس کے گھر کے لئے جبرئیل ہے

رحمت نشاں بحقِ گنہ گار روز حشر

در پیش گاہِ داورِ محشر وکیل ہے

یومِ جزا نصیب شفاعت ہو آپ کی

بس بخششِ نظرؔ کی یہی اک سبیل ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]