میں جانتی تھی تعلق کی آخری شب ہے

میں جانتی تھی تعلق کی آخری شب ہے
سو شب بخیر نہیں کہہ سکی میں آخر میں
لرز رہے تھے مرے ہاتھ
کانپتا تھا وجود
حصار ذات میں کتنی دراڑیں پڑ گئی تھیں
میں جانتی تھی کہ اگلی صبح اذیت ہے
محبتوں کے گلابوں کی عمر اتنی تھی
ابھی خزاؤں کی آمد ہے دل کے گلشن میں
بس ایک رات کی دوری پہ ہے جہنم سی
کل آنکھ کھلتے ہی سب خواب مر گئے ہونگے
میں اس کی دسترس سے دور جا چکی ہوں گی
وہ روکنے کا بھی سوچے تو اب نہیں رکنا
میں ناگوار کوئی بوجھ کیوں بنوں اس پر
اسے تو عشق کی رتھ پر سوار ہونا ہے
اسے تو رنگ کی دنیائیں بھی میسر ہیں
وہ ایک سلطنت کا شاہ اور میں ایک کنیز
مری بساط ہی کیسی کہ دل میں جھانکوں بھی
اسے کمی نہیں ہوگی رفاقتوں کی مگر
مرے وجود کی بنیاد ہلنے والی ہے
بس آج رات کا جو رابطہ میسر ہے
اسے میں اس طرح جی لوں
کہ اس کے بعد کبھی
جو وہ بھی لوٹ کر آئے
تو نامراد رہے
میں خود کو اس قدر پتھر کروں کہ جیتے جی
نہ اسکی سوچ ہو دل میں نہ اسکی یاد رہے
کومل جوئیہ۔۔۔۔۔۔۔۔میں جانتی تھی تعلق کی آخری شب ہے
سو شب بخیر نہیں کہہ سکی میں آخر میں
لرز رہے تھے مرے ہاتھ
کانپتا تھا وجود
حصار ذات میں کتنی دراڑیں پڑ گئی تھیں
میں جانتی تھی کہ اگلی صبح اذیت ہے
محبتوں کے گلابوں کی عمر اتنی تھی
ابھی خزاؤں کی آمد ہے دل کے گلشن میں
بس ایک رات کی دوری پہ ہے جہنم سی
کل آنکھ کھلتے ہی سب خواب مر گئے ہونگے
میں اس کی دسترس سے دور جا چکی ہوں گی
وہ روکنے کا بھی سوچے تو اب نہیں رکنا
میں ناگوار کوئی بوجھ کیوں بنوں اس پر
اسے تو عشق کی رتھ پر سوار ہونا ہے
اسے تو رنگ کی دنیائیں بھی میسر ہیں
وہ ایک سلطنت کا شاہ اور میں ایک کنیز
مری بساط ہی کیسی کہ دل میں جھانکوں بھی
اسے کمی نہیں ہوگی رفاقتوں کی مگر
مرے وجود کی بنیاد ہلنے والی ہے
بس آج رات کا جو رابطہ میسر ہے
اسے میں اس طرح جی لوں
کہ اس کے بعد کبھی
جو وہ بھی لوٹ کر آئے
تو نامراد رہے
میں خود کو اس قدر پتھر کروں کہ جیتے جی
نہ اسکی سوچ ہو دل میں نہ اسکی یاد رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]