میں روز اپنے لئے ضابطے بناتا ہوں

پھر اُن کو توڑتا ہوں اور نئے بناتا ہوں

پہنچ بھی جاؤں کہیں میں تو گھر نہیں کرتا

نئے سفر کے لئے راستے بناتا ہوں

مقیمِ دل ہوں میں، امید نام ہے میرا

میں خواب بُنتا ہوں اور واقعے بناتا ہوں

میں ٹکڑے جوڑ کے ٹوٹے ہوئے چراغوں کے

ہوا کے سامنے بیٹھا دیئے بناتا ہوں

بس ایک سنگِ ندامت ہے اب مری توفیق

میں پانی تکتا ہوں اور دائرے بناتا ہوں

نہ سنگِ میل، نہ منزل، نہ رہنما، میں تو

ستارے دیکھتا ہوں، زائچے بناتا ہوں

مجھے خبر ہے کہ جانا مجھے اکیلا ہے

تو پھر یہ قافلہ کس کے لئے بناتا ہوں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]