میں لب کشا نہیں ہوں اور محو التجا ہوں​

میں محفل حرم کے آداب جانتا ہوں​

جو ہیں خدا کے پیارے میں ان کو چاہتا ہوں​

اُن کو اگر نہ چاہوں تو اور کس کو چاہوں​

ایسا کوئی مسافر شاید کہیں نہ ہوگا​

دیکھے بغیر اپنی منزل سے آشنا ہوں​

کوئی تو آنکھ والا گزرے گا اس طرف سے​

طیبہ کے راستے میں ، میں منتظر کھڑا ہوں​

یہ روشنی سی کیا ہے، خوشبو کہاں سے آئی؟​

شاید میں چلتے چلتے روضے تک آگیا ہوں​

طیبہ کے سب گداگر پہچانتے ہیں مجھ کو​

مجھ کو خبر نہیں تھی میں اس قدر بڑا ہوں​

اقبال مجھ کو اب بھی محسوس ہو رہا ہے​

روضے کے سامنے ہوں اور نعت پڑھ رہا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]