میں نے سپردِ خاک کیے آخری کنول

پھر دفن ہو گیا ہوں دفینے کے ساتھ ہی

شرمندگی میں شکل عیاں ہو گئی مری

سب رنگ بہہ گئے ہیں پسینے کے ساتھ ہی

ساحل پہ کون ہے کہ سنے گا بھلا مجھے

ڈوبے گی یہ صدا بھی سفینے کے ساتھ ہی

دگنا ہے میرا کرب غمِ آگہی کہ میں

مر کر بھی دیکھتا رہا جینے کے ساتھ ہی

اس عہدِ ناسپاس کا عادی کہاں تھا غم

گھبرا کے لگ گیا مرے سینے کے ساتھ ہی

بامِ حیات پر تھا کوئی چاند کل تلک

دل سے اتر گیا ہے وہ زینے کے ساتھ ہی

گمنام زرگروں کے تخیل کا حسن بھی

سونے میں جڑ گیا ہے نگینے کے ساتھ ہی

تیری نفاستوں کا بڑا پاس تھا مجھے

سو قتل ہو رہا ہوں قرینے کے ساتھ ہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]