میں کار آمد ہوں یا بے کار ہوں میں

مگر اے یار تیرا یار ہوں میں

جو دیکھا ہے کسی کو مت بتانا

علاقے بھر میں عزت دار ہوں میں

خود اپنی ذات کے سرمائے میں بھی

صفر فیصد کا حصے دار ہوں میں

اور اب کیوں بین کرتے آ گئے ہوں

کہا تھا نا بہت بیمار ہوں میں

مری تو ساری دنیا بس تمہی ہو

غلط کیا ہے جو دنیا دار ہوں میں

کہانی میں جو ہوتا ہی نہیں ہے

کہانی کا وہی کردار ہوں میں

یہ طے کرتا ہے دستک دینے والا

کہاں در ہوں کہاں دیوار ہوں میں

کوئی سمجھائے میرے دشمنوں کو

ذرا سی دوستی کی مار ہوں میں

مجھے پتھر سمجھ کر پیش مت آ

ذرا سا رحم کر جاں دار ہوں میں

بس اتنا سوچ کر کیجے کوئی حکم

بڑا منہ زور خدمت گار ہوں میں

کوئی شک ہے تو بے شک آزما لے

ترا ہونے کا دعوے دار ہوں میں

اگر ہر حال میں خوش رہنا فن ہے

تو پھر سب سے بڑا فن کار ہوں میں

زمانہ تو مجھے کہتا ہے فارسؔ

مگر فارسؔ کا پردہ دار ہوں میں

انہیں کھلنا سکھاتا ہوں میں فارسؔ

گلابوں کا سہولت کار ہوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]