ناداروں کو علم کے موتی آقا نے انمول دیے

بابِ جہالت بند کیا اور ذہنوں‌کے در کھول دیے

انگاروں کو پھول بنایا ذرّوں کو خورشید کیا

جن ہونٹوں میں زہر بھرا تھا ان کو میٹھے بول دیے

میرے آقا آپ نے ان کو درس دیا ہے محنت کا

دنیا کے لوگوں نے جن کے ہاتھوں میں کشکول دیے

آپ سے بڑھ کر انسانوں کا اور کوئی ہمدرد نہیں

سنگ زنوں کو سنگ کے بدلے پیار کے موتی تول دیے

مدحت کا ٹوٹا نہ تسلسل گنبد سبز کے سائے میں

ساتھ زباں نے چھوڑ دیا تو آنکھ نے موتی رول دیے

یاد مدینہ جب بھی آئی ہم جیسے مجبوروں کو

طائر جسم و جاں نے ہمارے اُڑنے کو پر تول دیے

بے كيفى كے موسم ميں اك كيف سِوا اعجاز ملا

نغمہءِ نعتِ سرورِ ديں نے رنگ فضا ميں گھول دیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]