نشانِ منزلِ من مجھ میں جلوہ گر ہے تو

مجھے خبر ہی نہیں تھی کہ ہمسفر ہے تو

سفالِ کوزۂ جاں! دستِ مہر و الفت پر

تجھے گدائی میں رکھوں تو معتبر ہے تو

علاجِ زخمِ تمنا نے مجھ کو مار دیا

کسی کو کیسے بتاؤں کہ چارہ گر ہے تو

چراغِ بامِ تماشہ کو بس بجھا دے اب

میں جس مقام پہ بیٹھا ہوں باخبر ہے تو

یہ کس گمان میں لڑتا ہے تو حقیقت سے

یہ کس خیال کے عالم میں گم نظر ہے تو

ترے قدم سے بندھے ہیں ترے زمان و مکاں

تجھے مقیم سمجھتا تھا در بدر ہے تو

ابھی تو قضیۂ نان و نمک نہیں نبٹا

ابھی سے پائے تمنا کدھر کدھر ہے تو

تری جڑیں کسی مٹی کو ڈھونڈتی ہیں ظہیرؔ

زمینِ زر میں ابھی تک جو بے ثمر ہے تو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]