نظامِ آفرینش کا تو ہی عنوان ہے ساقی

بجسمِ عالمِ امکاں تو مثلِ جان ہے ساقی

ترا میخانۂ وحدت عظیم الشان ہے ساقی

برائے میگساراں دورِ مے ہر آن ہے ساقی

مئے وحدت، مئے کوثر، مئے عرفان ہے ساقی

ترے رندوں کی خاطر اف بڑا سامان ہے ساقی

خدا کے فضل سے تجھ پر مرا ایمان ہے ساقی

نہیں دل ہی سے پیارا تو عزیز از جان ہے ساقی

ہدایت کے لئے سب کی ترا قرآن ہے ساقی

قیامِ حشر تک سرچشمۂ فیضان ہے ساقی

کھرے کھوٹے عمل کا فیصلہ آسان ہے ساقی

تری سنت برائے ہر عمل میزان ہے ساقی

گروہِ عاشقاں میں جن کی اونچی شان ہے ساقی

ابو بکرؓ و عمرؓ حیدرؓ ہے اور عثمانؓ ہے ساقی

شبِ معراج کہتی یہ علی الاعلان ہے ساقی

تو جلوہ گاہِ یزداں میں ہوا مہمان ہے ساقی

تری تعلیم ہی سے آدمی انسان ہے ساقی

گروہِ ابنِ آدم پر ترا احسان ہے ساقی

حسابِ زندگی دینا بروزِ حشر مشکل ہے

ترا دامن پکڑ لینا مجھے آسان ہے ساقی

خدا کو مان کر واحد نہ لائے تجھ پہ جو ایماں

مرے ایمان کی رو سے وہ بے ایمان ہے ساقی

تری سیرت کو یکجا کر کے جب اس پر نظر ڈالی

تو پایا ہم نے وہ تو ہو بہو قرآن ہے ساقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]