نظر کے ریگزاروں کو متاعِ نقش پا دے دو

میں ہوں تاریک راہوں میں اُجالوں کا پتا دے دو

اس عہد جبر میں ہر سُو محبت کی اذاں گونجے

ہمیں ایسی دعا پھر اے حبیب کبریا دے دو

جہالت کے اندھیروں کی فصیلیں جس سے گر جائیں

مرے ہاتھوں کو ایسا عِلم کا روشن دیا دے دو

پھرے ہیں در بدر اے رحمت عالم کرم کردو

سمیٹو قرب کی چادر میں قدموں میں جگہ دے دو

سنا ہے دامن عصیاں کو دھو دیتے ہیں آنسو بھی

مری آنکھوں کو بھی اک چشمۂ آبِ بقا دے دو

وہ جس پہ چل کے طرز حضرتِ حسّان ملتی ہے

مرے لفظوں کو ایسی شاہراہِ ارتقاء دے دو

لکھے سب پھول جیسے لفظ سوچے چاند سے مضموں

صبیحِؔ نعت گو کو نعت کا لہجہ نیا دے دو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]