نقشِ اسمِ مصطفیٰ پر میں فدا ہوتا رہا

اور نزولِ نعت مجھ پر بے بہا ہوتا رہا

آیۂ فَلْیَفْرَحُوْا کے مُتَّبِع جو بھی رہے

مقصدِ تخلیقِ جاں اُن کا ادا ہوتا رہا

سطوتِ شاہی کو چھوڑا اُس نے پھر اک شان سے

جو شہنشاہِ مدینہ کا گدا ہوتا رہا

نعت گوئی ہے سعادت زورِ گفتاری نہیں

یہ کرم جس پر ہوا ، ہوتا رہا ہوتا رہا

مطلعِ اظہار میں لکھا تھا بس نامِ نبی

پھر تو ممدوحِ نبی خود بے نوا ہوتا رہا

آنسووں سے ہجر میں دھوتا رہا میں روح کو

داغِ فرقت قلب سے میرے جدا ہوتا رہا

چھیڑ کر تارِ درودی دل کے دف کی تھاپ پر

مدحِ آقا کے لیے نغمہ سرا ہوتا رہا

حضرتِ موسی سے مل کر بار بار آتے رہے

اور جاے وصل وہ قصرِ دنیٰ ہوتا رہا

روز ہی لکھتا رہا میں نعتِ شاہِ دو جہاں

قصرِ مدحت روز ہی جیسے نیا ہوتا رہا

صدقۂ اصحاب و آلِ مصطفیٰ ، منظر مجھے

نعت کی صورت عطا صبح و مسا ہوتا رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]