نمو کے جوش میں ذوقِ فنا حجاب بنا

شریکِ بحر جو قطرہ ہوا حباب بنا

تو آپ اپنے ہی جلووں میں رہ گیا گھر کر

ترا ہی عکس ترے حسن کا جواب بنا

بچھڑ کے تجھ سے ترا سایہ جہاں افروز

سحر کو مہر بنا ، شب کا ماہتاب بنا

نہ مٹ سکے گا ترا نقش لوحِ فطرت سے

نہ بن سکے گا نہ اب تک ترا جواب بنا

سمٹ کے جُزوِ پریشاں بنے جہانِ حیات

ابھر کے جوشِ نمو عالمِ شباب بنا

تمہارے گرمیٔ محفل کے رنگ نے اُڑ کر

کہیں پناہ نہ پائی تو آفتاب بنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]