نورِ حق نے اس طرح پیکر سنوارا نور کا

نور گویا بن گیا ہے استعارہ نور کا

ہے کوئی ایسا بشر اس عالمِ امکان میں؟

سر سے پاؤں تک ہو جو اک شاہ پارا نور کا

نور دل ہے، نور سینہ، نور پیکر، نور جاں

نور کا سورہ ہے گویا استعارا نور کا

جو حجاباتِ خداوندی میں چمکا مدتوں

جالیوں سے دیکھ آیا ہوں وہ تارا نور کا

رات زلفوں کی بلائیں لے کے پیچھے ہٹ گئی

سانس لے کر صبح نے صدقہ اتارا نور کا

انشراحِ قلب و سینہ کا بیاں قرآن میں

نور کے دریا میں گویا ہے یہ دھارا نور کا

سرحدِ قوسین سے بھی ماورا معراج میں

بزم ’’او ادنی‘​‘​ میں چمکا اک ستارا نور کا

چاند، سورج، کہکشاں، تارے، دھنک اور روشنی

نور کے دریوزہ گر پائیں اتارا نور کا

ایک درِ بے بہا ہے یا ہے قطرہ نور کا

میری پلکوں پر فروزاں ہے جو تارا نور کا

سینہ بریاں، دیدہ گریاں کیجیے مجھ کو عطا

میرے دل پر بھی ہمیشہ ہو اجارا نور کا

اک نگاہِ لطف فرما دیجیے ہم پر حضور

ہم کو بھی درکار ہے بس اک اشارا نور کا

یا رسول اللہ اپنی کاوشیں مقبول ہوں

یہ ’’فروغِ نعت‘​‘​ بن جائے ادارہ نور کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]