نور کی اوٹ کے مابعد زیارت ہو جائے

یا نبی خواب دریچے پہ عنایت ہو جائے

پورے الفاظ سے بنتی نہیں تصویرِ جمال

اذن ہو جائے تو لکنت مری مدحت ہو جائے

کاسۂ فہم میں رکھ دے کوئی ادراک کی بھیک

چاہتا ہوں کسی صورت تری صورت ہو جائے

قریۂ جاں میں ترے قرب کے موسم مہکیں

دید کے رنگ کھِلیں، یاد کی نکہت ہو جائے

ایک ہی لمحے پہ رُک جائے زمانوں کا سفر

ساعتِ دید ہی بس دیدۂ حیرت ہو جائے

پھر مدینے کے تصور نے کیا ہے بے خود

عرض ہے اے مرے محبوب، اجازت ہو جائے

دید کے خواب گھروندوں میں ہیں جگنو چمکے

وہ اگر چاہیں تو مقصودؔ حقیقت ہو جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]