نور کی ڈور سے ہم لعل و گُہر باندھتے ہیں

مصرعِ نعت بہ صد شوق اگر باندھتے ہیں

بر سرِ عرش نہ کیوں شادی رچے، آج کہ آپ

جانبِ قصرِ دنیٰ رختِ سفر باندھتے ہیں

ہے رسد گنبدِ خضریٰ سے شب و روز اُنھیں

روشنی کا جو سماں شمس و قمر باندھتے ہیں

ٹکٹکی آپ کے دربار کی جالی پہ شہا

بہرِ دیدار مرے دیدۂ تر باندھتے ہیں

میم لکھتے ہی عجب کیف سا چھا جاتا ہے

ایسے تحریر کی تمہید اگر باندھتے ہیں

گرچہ عاجز ہیں مگر پھر بھی خیالِ مدحت

سر بہ سر باندھتے ہیں شام و سحر باندھتے ہیں

ہے عجب شانِ عطا حشر میں دستارِ نعم

آپ اپنے ہی گنہ گار کے سر باندھتے ہیں

ہے عطا اُن کی جہانداد ترے جیسے بھی

منظر نعتِ نبی بارِ دگر باندھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]